کوروناء سینٹر یا بھوت بنگلہ۔۔۔۔

عالمیگیر تجزیہ نگار و کالم نویس
عالمیگیر تجزیہ نگار و کالم نویس

تحریر: عالمگیر حسین۔۔

گلگت شہر کے مضافات محمد آباد دنیور میں صوباٸی حکومت گلگت  بلتستان نے کورونا سینٹر قائم کررکھا ہے اس تیس بستر گنجائش کوروناء مرکز کا محل وقوع کا مختصر خاکہ بقول شاعر۔۔

 

 

میرے گھر سے برسے ھے بیاباں ھونا۔

۔کی عملی تصویر ھے لق و دق ویرانے میں

وسیع وعریض ناہموار اور چٹیل رقبے پر صوبائی دارلحکومت کا مرکزی کوروناء سینٹر کی عمارت اپنی موجودگی اور حکومتی عدم دلچسپی کا پتہ دیتی ھے۔ اگرچہ کوروناء وباء 2020 میی پھوٹی تھی۔

تب گلگت بلتستان میں مسلم لیگ ن کی حکومت تھی لیکن آج 2021۶ میی بھی اس تیس بیڈ ھسپتال کا منظر ایک بھوت بنگلے سے زیادہ کچھ بھی تھی۔۔اپوزیشن لیڈر امجد ایڈوکیٹ کی دعوت پر بندہ ناچیز کچھ دیگر صحافیوں کے ہمرآہ محمد آباد ھسپتال آنے کا موقع ملا ۔

سب سے پھلے تو میی اپنی جانب سے اس اھم مسلٸے پر نہ لکھ پانے اور اپنا کردارادا نہ کرپانے پر سخت ندامت کا احساس کرتے ھوٸیے سوچا کہ زیر نظر مضمون کی وساطت سے اپنا حصہ اس کار خیر میں ضرور شامل کروں کیونکہ یہ ایک خالص انسانی مسلہ ھے جس کے ساتھ کسی ایک کی نہیں بلکہ پورے گلگت بلتستان کے عوام کا تعلق اہم ضروت بھی ھے ۔

الغرض محمد آباد کوروناء سینٹر کی دورے میی یہاں کی ایڈمنسٹریشن اور ڈاکٹرز و طبی عملے سے ملاقات اور اس ادارے کے مسائل سے آگاہی کا موقع ملا ۔ ھسپتال میی ایم ایس,لیڈی ڈاکٹر اور پیرامیڈیکل اسٹاف شامل تھے اسپتال کا سب سے اھم مسلہ پانی کی قلت بلکہ کہنا چاہیے کہ پانی تو یہاں ہے ہی نہیں ۔

کیونکہ جس بے آب وگیاہ صحرآہ میی ایک ابھری چٹان پر ہسپتال بنایا گیا ھے یہاں علاقائی پانی کی تقسیم بندی کے روائتئ جھگڑے کی وجہ سےپانی کا حصول ایک مسلہ ہے فی الوقت اسپتال کے لیے ٹینکر سے پانی خریدا جارہا ہے۔ بیماری کی نوعیت اور ضرورتوں کے پیش نظر یہ نہایت خرچیلا اور مہنگا سودا ہے۔

جس کی بناء پر ہسپتال کا عملہ اور مریض اور اٹینڈنٹ شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ کوویڈ مرکز میی پانی اور حفظان صحت کے لوازمات میں صاف پانی کی بلا روک ٹوک فراہمی بنیادی ضرورت ہے لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے منصوبہ بند اداروں کی نااہلی اور غفلت پر باقاعدہ تحقیقات ھونی چاہیے۔

دوسری مشکل یہ ہے کہ ہسپتال چونکہ غیرآباد بنجر زمین پر ہے سخت گرمی میی بجلی دوسری اہم ترین ضرورت ہے مگر سد افسوس کہ بجلی کا وہ انتظام نہیں ہے جس کا حالات تقاضا ہے ۔

مریض کی بہتر نگہداشت اور علاج کے عمل میں صاف ماحول اور گردوپیش کا اچھا ہونا اہم لوازمات میں سے ہیں مگر یہاں تو سرے شام گھپ اندھیرا اور کالی چٹانوں کے علاوہ نہ کوئی سبزہ ہے اور نہ ہی نام کی ہریالی۔

یوں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس مقام پر صحت وصفائی کےلیے درکار وسائل کا کوئی وجود ہے نہ یہ اسپتال اس طرح کے مریضوں کے علاج کے لیے سازگار بلکہ خاکم بدہن یہ ہسپتال کم جیل زیادہ معلوم ہوتا ہے۔۔۔

گلگت بلتستان میی کوروناء کا پیھلاو میں تیزی کے ساتھ محمد آباد اپنی گنجایش سے زائد مریضوں کی دیکھ بھال اور علاج کررہا ہے ایم۔ایس و انچارج ڈاکٹر نے صحافیوں کے سوالات کے جواب میی بتایا کہ اسپتال میی آکسیجن سلینڈر سمیت کوویڈ کی تمام ادویات داخل مریضوں کو مفت فرا کی جارھی ہیں اور یہا ں موجود فی میل ڈاکٹر اور نرسنگ اسٹاف نہایت جانفشانی اور محنت سے مریضوں کا علاج کر رہے ہیں ۔

جو کہ نہایت متاثر کن اور قابل تقلید ہے اگر یھی جزبہ محکمہ صحت کے اعلی’حکام اور زمہ داراں میی بھی ہو اور وہ اپنے محل نماء پرآسائش دفاتر میں اےسی اور آرام دہ کرسیوں پر “خدمات” انجام دینے کے علاوہ کچھ لمحات خطرات سے روبرو شدید گرمی میں مریضوں اور انسانیت کی حقیقی خدمت میں مگن ان ڈاکٹروں اور معاون عملے کی حوصلہ افزائی کے لیے نکال کر کوروناء مراکز اور ہسپتالوں کو دے تو یقینا”حالات میی بہتری آیٸے گی ۔۔۔

یہ خبر بھی پڑھیے ۔

آزادی اور سزا و جزا کا قانون ۔ معاشرے کی تشکیل کے بنیادی اصول د نیا اسلام اور دیگر مذاہب میں آزادی

 

حرف آخر کے طور پر صوبائی حکومت ,وزیر اعلی’جناب خالد خورشید ,وزیر صحت سمیت انتظامیہ ایمرجنسی کے حالا ت اور غیریقینی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ان شکایات اور کمزوریوں کے ازالے پر توجہ دے اور ممکنہ طور پر گلگت بلتستان میی حفظ ما تقدم کے طور مکمل لاک ڈاؤن کی تجویز پر کوئی بروقت فیصلہ کرلیں ۔

ان لوگوں سے کیا امیدیں لگانا آخر جو لوگوں اپنا ضمیر کا سودا کرتے ہیں وہ قوم کی پیسوں کی تحفظ کرینگے

شئیر کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں