چترال ۔تاریخی مسجد کی تصویر

تراچترال کے خوبصورت وادی آیون میں سو سال سے بھی زیادہ قدیم تاریحی مسجد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ حکام سے اس تاریحی ورثے کی حفاظت کرنے کی اپیل۔

 

چترال (گل حماد فاروقی) مساجد کو مسلم امہ میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔ مسلمان اپنے ان عبادت گاہوں یعنی مساجد کو ایک صدقہ جاریہ سمجھ کر تعمیر کراتے ہیں۔ مسلمان چاہے غریب ہو یا امیر مگر مسجد کی تعمیر اور اس کی تزئین و آرایئش میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ چترال جو ماضی میں ایک آزاد ریاست تھا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑی ریاست جو 14850 مربع کلومیٹر پر محیط ہے۔

 

یہاں غیر مسلم یعنی کیلاش قبیلے نے بھی پانچ سو سال تک حکمرانی کی ہے۔ اس کے بعد رئیس اور کٹور خاندان نے حکومت کی بھاگ دوڑ سنبھالی۔یہ دونوں قبیلے مسلمان تھے۔ ان حکمرانوں کو مقامی زبان میں مہتر کہلاتے ہیں اور ان کی دور حکومت میں بعض ایسے مساجد تعمیر ہوئے جو فن تعمیر کی شاہ کار سمجھے جاتے ہیں۔

 

وادی آیون میں نہر کے کنارے اس قسم کا ایک مسجد جو سو سال قبل تعمیر ہوا ہے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے مگر حکام کی عدم توجہ کی وجہ سے یہ تاریحی ورثہ اب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ اس مسجد کی تعمیر کا تاریح فارسی زبان کے ایک شعر میں لکھا گیا ہے۔اس مسجد کی میناروں، ستونوں، دروازوں پر کشیدہ کاری اور فن تعمیر کا مثال بہت کم ملتا ہے۔ مروجہ اصولوں کے مطابق جو عمارت 70 سال پرانا ہوجائے تو اسے قومی اثاثہ تصور کیا جاتا ہے مگر سو سال سے زبھی زیادہ پرانا ورثہ یہ مسجد ابھی تک حکام کی نظروں سے اوجھل ہے۔

 

علاقے کے لوگ محکمہ آثار قدیمہ اور متعلقہ اداروں کے ارباب احتیار سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس تاریحی مسجد کی Renovation اور اس کی حفاظت کیلئے ضروری اقدام اٹھائے مبادا کہ پھر اس تاریحی اثاثے کی تصویریں صرف کتابوں میں ملے اور آنے والا نسل اس تاریحی ورثے کو دیکھنے سے محروم رہے۔

شئیر کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں