تبدیل دنیا کو نظر آرہی ہے ۔ اس لیےپاکستان کے بارے نظریے تبدیل ہورہے ۔ تبدیلی اپوزیشن کو بھی نظر آرہی ہے مگر عوام کی آنکھوں میں دھول جونکنے کی ناکام کوشش میں ہیں ۔اس کوشش میں لفافہ صحافی ,کچھ بیکاو میڈیا ہاوسس اور سوشل مہیم شامل ہے ۔ یہ تبدیلی کیا ہے ۔ کون اس تبدیلی کا موجب ہے ۔ کو نسا نظریہ ہے ۔ جو مغرب میں نظر آتا ہے پاکستانی میڈیا میں نظر نہیں آتا ہے ۔ پوری تفصیل اس کالم میں
تحریر سیداسد اللہ غازی
عمران خان نے 1996 میں تحریک انصاف کی بنیاد رکھی 1992 کے کرکٹ ولڈ کپ بحیثیت کپتان جیتنے کی وجہ سے وہ ایک قومی ہیرو جانے جاتے تھے ۔جبکہ مغربی ممالک میں وہ ایک مشہور کرکڑ اور پلیے بواٸے کی شناخت رکھتے تھے۔ جہاں جاتے ان کو دیکھنے کے لیے مجموعہ لگجاتا تھا ۔انہوں نے انگلستان کی ایک امیر زادی جماٸمہ گولڈسمیتھ سے شادی کی ۔
شادی کے بعد بھی ان کی مقبولیت خواتین میں کم نہیں ہوٸی ۔ عمران خان نے اسی دوران پاکستانی ہونے کی وجہ بعض موقعوں پے حقارت کا سامنا کیا یہی وجہ تھی کہ انہوں نے پاکستان کی وقار کو پوری دنیا میں منوانے کے لیے سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا ۔اس وقت کے وزیر اعظم نوازشریف نے انہیں صدر پاکستان بنانے کی پیشکش کی۔ پی پی پی نے اپنے پارٹی میں بڑا عہدا دینے کی پیش کش کی مگر ضدی عمران اکٹ گیا ۔
اور فیصلہ کیا کہ اس نے سیاستدانوں کا احتساب کرنا ہے ۔ جو اپنا مال بنانے کی چکر میں ملکی وقار کو داغ دار کر چکے تھے ۔ ملکی خزانے کی لوٹ مارکر کرنے والے سیاستدان اور بیوروکریسی کا احتساب کر کے عوام کو انصاف دیلاٸینگے ۔ انہوں نے انصاف کی اصول کے لیے تحریک شروع کیااور پارٹی کا نام ہی تحریک انصاف رکھا ۔شروع میں یہ پارٹی ون مین آرمی بن کر صرف اور صرف عوام کو آگاہی دیتے رہے ۔ ان کے فین فالورز بچے یا جوان تھے ۔ درمیانہ اور بڑی عمر کے لوگوں کے دماغ میں دو پارٹیوں کے منشور پیوست ہوچکا تھے ۔
عوام کو کرپشن ,دوکھا دہی , لوٹ کھسوٹ , دھامدلی نہیں دیکھاٸی دیتا تھا ۔ ملک کے دو ٹکڑے کر کے ادھر میں ادھر تم کہنا والا سولی پے بھی زندہ نظر آتا تھا جبکہ آمریت کی حکومت سیاسی تربیت پانے والا لوہار اکابر و رہنما دیکھاٸی دیتا تھا دو پارٹیوں کے سفارش اور ملی بگت سے ملازمت حاصل کرنے والے بیوروکریسی دونوں کو ہی پسند کرتی تھی ۔
اسی دوران پرویزمشرف نے آٸین کو توڈا اور آمرانہ حکومت قاٸم کی ۔
مبینہ جمہوریت کی بساط لپیٹ لیا ۔ پرویزمشرف اقتدار میں آتے ہے بڑے بوٹ پہن کر سلوٹ کرنا بول گیا اور امریکہ کے اشاروں پے قباٸل عوام اور شہر اقتدار میں اسلامی سکولوں پے نہتے بچے بچیوں پے کارپیٹ بم برساٸیا اور باعزت فوج کو کرایے کا قاتل بنا کر امریکی مفادات کے لیے مظلوم عوام پے گولیاں برساٸیے ۔ قباٸل عوام جو ہمیشہ پاک فوج کے شانہ بشانہ ہر محاز پے دست اول ہواکرتے تھے ناراض کیا جس کے نتیجے میں عوام فوج کی مخالفت میں ریاست کی ریڈ کو چلینج کرنے لگے یوں 70ہزار افراد لقمہ اجل بن گٸے ۔
مشرف کا اقتدار سن 2008 میں پی پی پی پی حکومت آنے پے کمزرور ہوا ۔مشرف کو پہلے وردی اتارنا پڑا پھر اقتدار سے ہاتھ دوبیٹھا اور اپنے سابق فوجی عہدے کا فاٸدہ اٹھا کر ملک سے فرار ہو ا آج رسواٸی کی زندگی بسر کر رہا ہے ۔
سن 2013 میں پی ٹی آٸی کو صوبہ کے پی کے میں اقتدار کاموقعہ ملا انہوں نے پرویز مشرف کے غلطیوں کا تلافی کی ۔ خود کش حملے بھی اسی صوبے میں سب سے زیادہ ہوتے تھے ۔
عمران خان ڈاکٹرین نے مشرف کے پالیسیوں سے تنگ مسلحہ گروہوں سے مزکرات کر کے امن قاٸم کیا ۔ افغانستان میں امریکی مداخلت پے وہ کھل کر مخالفت کرتے رہے ۔ سن 2010 میں موجودہ صدر جو باٸڈن کو عمران خان نے افغان مسلے کومزاکرات کے زریعے حل کرنے کا مشورہ دیا اوبا ہو ڈونلٹرنپ سبھی کو مزکرات پے زور دیتا رہا ۔ سن 2018 الیکشن میں عمران خان کو کامیابی ملی۔
اس وقت ملک کا تقریبا دیوالیہ ہوا تھا ۔ دنیا بھر میں تنہا ہوتا جا رہا تھا ۔ ایسے میں عمران خان نے اقتدار سھنبالا انہوں نے عالمی سطح پر پاکستان کی سفارتکاری خود کرنی شروع کی اقوام متحدہ میں تاریخی خطاب کیا ان کی خطاب کو پوری دنیا نےسراہا اسلام فوبیا اور مغرب کی دوغلی پالیسوں کی نشاندہی کی پاکستان کا امریکی جنگ میں شمولیت کو نا صرف غلطی قرار دیا بلکہ دوسروں پے جنگ تھوپنے کے عمل کو ہی سب سے بڑی دہشتگری کہلایا ۔
فلسطین اور مقبوضہ کشمیر میں جاری جاہریت کو ہدف تنقید بنایا ۔ افغانستان میں امریکی مداخلت کو امریکہ کے لیے ہی سب سے بڑا نقصان قرار دیا ۔ اس کے بعد مغرب اور امریکہ میں عمران خان کی بات کو لیکر اپنے حکمرانوں کو تنقید کا نشانہ بنا نا شروع کیا ۔
بلآخر افغانستان سے امریکہ کو جانا پڑا اور بحفاظت انخلا کے لیے امریکہ کو عمران حکومت سے مدد درکار ہوٸی اور پاکستان نے اس سلسلے میں برپور تعاون کیا ۔ امریکی انخلا کے بعد امریکہ نے پاکستان سے کٸی مطالبات کیے خلاف توقع عمران خان نے ایپسلوٹیلی ناٹ جواب دیا۔ پھر امریکہ نے کابل پے طالبان کے قبضے کو پاکستانی حمایت اور مدد کا الزام لگا یا ۔ اور پاکستان کے خلاف امریکی سینٹ میں بل پاس کیا ۔
حال ہی میں امریکہ نے چین کے خلاف بلاگ تیا ر کیا اور جمہوری ممالک کا اجلاس طلب کیا پاکستان نے اس میں شرکت سے انکار تو امریکہ کو بات سمجھ میں آٸی کہ پاکستان میں اب امریکی غلام سربراہ نہیں بلکہ ایک باضمیر ہمت والا شخص ہے تو انہوں نے امریکی سینٹ سے پاکستان مخالف بل کو واپس کیا اور اسلام فوبیا کے خلاف بل پاس کیا ۔ پاکستان کو اب دنیا میں عزت دی جارہی ہے ۔ اس سے پہلے کوٸی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ امریکہ اشارہ کریں اور پاکستان انکار کریں ۔پاکستان میں 41سال بعد او آٸی سی کا اجلاس ہوا اجلاس کے افتتاحی تقریب سے پہلا خطاب بھی اس مرد بحران نے کیا ۔ اس سے پہلے او آٸی سی میں پاکستان کو اہمیت نہیں دی جا رہی تھی ۔ پاکستان نے ترک اور ملاٸیشا کے ساتھ ملکر الگ بلاگ بنانے پے غور کیا عرب سربراہاں کو پتہ چلا کہ عمران خان کو پوری دنیا سنتی ہے ۔ افغان ایشو پے بغیر منافیقت کے وہ کھل کر بات کرتے ہیں ہر ہفتے دنیا بھر کے مشہور میڈیا ہاوسس ان کا انٹریو نشر کرتے ہیں ۔ روس کے سا تھ پہلی دفعہ انہوں نے تعلقات قاٸم کیے ۔پاکستان روس اور چین بڑے ممالک کے بلاگ میں ایران اور ترکی کو ساتھ ملاکر ایک مظبوط خارجہ پالیسی ساز کا کردار ادا کیا ۔ دنیا اب عمران خان کی طرف مرکوز اس میں کوٸی بعید نہیں کہ وہ آٸیدہ پالیمانی نظام کو تبدیل کر کے صدارتی انتخابات کے زریعے حکومت میں آٸیں اور پاکستان کی بات دنیا عالم کے لیے حکم کی حیثیت رکھے ۔ اور جو وعدہ کیا وہ پورا ہو۔
سابق سربراہ آٸی ایس آٸی جرنل حمید گل کے بقول امریکہ کی حمایت کے بغیر پاکستان میں آرمی چیف نہیں بن سکتا ۔ مگر عمران خان نے اس روایت کو بدل ڈال ۔
مگر یہ بات اپوزیشن کو ہضم نہیں ہورہی ہے۔ قاٸد اعظم کا بھی یہی ویژن تھا اور عمران خان اس راہ پے گامز ن ہیں ۔اب زرا بات ہوجاٸے اندرونی معملات میں عمران خان کے اہم فیصلوں کی ۔
کرونا وبامیں پوری دنیا نے لمبے عرصے تک لاک ڈاون کیا مگر انہوں نے اچھے اور بروقت فیصلے کرکے عوام کو مزید بدحال ہونے سے بچایا ۔
ان کے پارٹی کے اہم رہنما کرپشن میں شامل تھے ان سے بےروخی اختیار کیا اور ان کے خلاف کیسسز میں ان کا ساتھ نہیں دیا ۔ اور اداروں پے اثر انداز نہیں ہوا۔ سابق حکمران دونوں پارٹیوں کو بے نقاب کیا ۔
وزیراعظم عمران خان کی خلوص اور زمہداریوں کی ادائیگی پر زرہ برابر شک کی گنجائش نہیں ہے اس بات کا اندازہ یہی سے ہوتا ہے کہ اپنے بہت ہی قریبی ساتھی اور مشکل وقت میں دولت لٹانے والا جہانگیر ترین کو بھی قانون کے مطابق سزادینے میں انہیں کوئی ہچکچاہٹ کا سامنا نہ ہوا اسی طرح کی دیگر مثالیں اور بھی ہمارے سامنے ہیں یہ تمام اقدامات انتہائی تعریف کے معترف ہیں
پی پی کو سند ھ تک محدود کردیا اور ن لیگ کی قیادت کو دھوم دبا کر ملک سے فرار ہونے مجبور کیا ۔ عالمی سطح پے مہنگاٸی کا طوفان ہے ۔ مگر یہاں پر کافی قابو پالیا ۔ تاہم اب بھی عوام ان کی حکومت سے مہنگاٸی کا گلہ کر رہے ہیں اس سلسلے میں عمران خان کو اور بھی انقلابی اقدامات کی اشد ضرورت ہے ۔
عمران خان کے وہ ساتھی جو ہمیشہ عوام کے درمیان ہوتے ہیں ان کے مشوروں پے غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ فواد چودری , خصروبختیار , شہباز گل , حبیب , عثمان ڈار , امین اسلم , امین گنداپور جیسے ہواٸی سیاستدان جو آج ایک پارٹی میں تو کل کسی اور پارٹی میں ان کو بھی جہانگیر ترین کی طرح ساٸیٹ لاٸن کردے تو اگلی باری پھر عمران خان کی ہی ہوگی ۔
گزشتہ دنوں کے پی کے بلدیاتی انتخابات میں کے پی کے میں کل ووٹ تو پی ٹی آٸی کو زیادہ ملے ہیں ۔مگر مٸیر کی سیٹس جمعیت علما اسلام ف کے مقابلے میں کم لیں ۔ اسکی ایک وجہ ٹیکٹوں کی تقسیم میں مندرجہ بالا مزکورہ اشخصاص کی پارٹی معملات میں بے جامداخلت اور سفارش ہے ۔ گوکہ آج عمران خان نے سنٹر اور صوباٸی تمام پارٹی عہدوں کو تحلیل کیا ہے امید ہے کہ دوبارہ جب عہدیں دے تو میرٹ کی بنیاد پے دیں ۔
پاکستان میں پی ٹی آٸی واحد پارٹی جس کا نظریہ مدینہ کی ریاست ہے ۔ جسمیں انصاف , عدل , قانون کی حکمرانی , صحت , تعلیم , روزگار, امیر و غریب کے برابری کے حقوق , غریبوں کو لیے احساس پروگرام , نوجوانوں کے لیے یوتھ لون پروگرام , صحت کارڈ , تعلیم کارڈ اور بہت کچھ انقلابی اقدامات کیے جارے ہیں ۔
پاکستان کا سب سے مہنگا ترین ٹاون ہنزہ ہے ۔ جہاں قیمتیں سے زیادہ ہیں ۔ انتظامیہ نام کی کوٸی چیز آپ کو کہیں نظر نہیں آتی ۔ انتظامیہ کا نام اگر کہیں لیا جا تا ہے تو وہ ملکیتی زمینوں کو سرکار کے تحویل میں لینے کے لیے پیماٸش اور غیر ضروری ایشوز پے مرکوز نظر آٸینگے
باقی پارٹیوں کا نظریہ جیسے بٹھو زندہ ہے روٹی کپڑا مکان یہ سب بٹھو کے ساتھ دفن ہوچکے ہیں ہر گھر سے بٹھو نکلے گا تاہم بٹھو کے گھر سے زرداری برآمد ہوا ۔مگر اب بھی کچھ ناسمجھ عوام وہی نعرہ لگارہے تھے عمران خان نے عوام کو تبلیغ کر کر کے سمجھایا کہ بٹھو دفن ہوچکا ہے ۔
رہا شریف فیملی ویسے بھی ن لیگ نوزا شریف کے نام سے ن سے معخوض ہے یہ ایک خاندانی حواریوں کی پارٹی ہے یہ کھاو قبیلے کے نام سے اب جانا جاتا ہے لفافہ صحافیوں سے اب یہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ڈیل کی خبریں لگا کر اپنا سیاست کر رہے ہیں ۔
اس پارٹی کی بدقسمتی یہ ہے کہ مریم نواز کا اپنے حواریوں پے احکامات چل رہے ہیں اگر واقعی سیاسی پارٹی ہوتی تو کم از کم کسی سیاسی رہنما کو نواز شریف کی مفروری کے دران پارٹی کی قیادت کا موقع دیتے اب اس پارٹی میں وراثت کی تقسیم کا مسلہ جیسا ایشو بنا ہوا ہے کہ نوازشریف کی مفروری میں شہباز قیادت کریں یا مریم اس لیے دو سابق برسراقتدار پارٹیوں کا نظریہ ستّر فیصد عوام سمجھ چکے ہیں ۔
مگر اب پی ٹی آٸی میں موجود منافیقین کو چن چن کر الگ کرنا ہوگا ۔ گوکہ عمران خان پارٹی عہدے تحلیل کرچکے اب اگلا مرحلہ آجو باجو میں موجود سیاسی مداریوں اور خوش آمد ٹولے کو اپنے انجاب کو پہنچانا باقی ہے ۔
اگر بدقسمتی سے اسٹیبلشمنٹ نواز شریف سے کوٸی ڈیل کر لیں اور سیاست میں مداخلت کردیں تو پنجاب کے علاوہ دیگر صوبے کے عوام سن 2004 کی طرح اداروں کے خلاف ہونگے او ر ملک پھر سے دہشتگردی کی لپٹ میں آنے کا خدشہ ہے ۔ یقینا اسٹیبلشمٹ کبھی ایسا غلطی نہیں کریگی ۔ گزشتہ دنوں زرداری نے بھی ایک معنی خیز جملہ کسا کہ اب ہم سے مدد طلب کی جار رہی ہے ۔
اتنا برا وقت بھی نہیں آیا ہے کہ بلی سے دودھ کی رکھوالی کرلیں ۔ اسٹیبلشمنٹ کے پاس چودھدری نثار کا اپشن موجود ہے مگر عمران خان ملکی سالمیت کے علامت ہیں اس لیے کبھی ان کی مداخلت کی گنجاٸش نہیں تاہم اپوزیشن کی خواہش ہے کہ کسی طرح عمران حکومت کی بساط کو لپیٹا جاٸے تاکہ وہ احتساب کے عمل سے بچ سکے اگر واقعی وہ سیاستدان ہوتے تو کبھی بھی غیر جمہوری اداروں سے ایسا مطالبہ کبھی نہیں کرتے ۔
پی ٹی آٸی میں بہت سی خرابیاں ہیں کمزوریاں بھی ان کے پاس مظبوط معاشی ٹیم نہیں اداروں کی سربراہاں کی تعیناتی ان کے لیے بڑا چلنج ہے ۔ مہنگاٸی بے قابوں ہے ۔ کرپشن اب بھی جاری ہے بیروکرسی پے ان کا کنٹرول کمزرور ہے ۔ گورنر اسٹیٹ بنک اور وزیر خزانہ آٸی ایم ایف کے زہنی غلام نظر آرہے ہیں ۔ اس کے باوجود دیگر دونوں سابق برسراقتدار مافیاز کے مدمقابل پی ٹی آٸی والے اولیاں کا درجہ رکھتے ہیں ۔
پاکستان کی عوا م کے پاس متبادل قیادت نہیں ۔ ستّر سال سے پالیمانی جمہوریت چل رہی ایک دفعہ صدارتی نظام حکومت کو بھی ازمانا چاہیے ہوسکتا ہے کوٸی ترکی کے صدر طیب ادروگان کی طرح جرت مند فیصلے کر کے ملک کو آٸی ایم ایف کے چنگل سے آزاد کریں
“تبدیل دنیا کو نظر آرہی ہے ۔ اس لیےپاکستان کے بارے نظریے تبدیل ہورہے ۔ تبدیلی اپوزیشن کو بھی نظر آرہی ہے مگر عوام کی آنکھوں میں دھول جونکنے کی ناکام کوشش میں ہیں ۔اس کوشش میں لفافہ صحافی ,کچھ بیکاو میڈیا ہاوسس اور سوشل مہیم شامل ہے ۔ یہ تبدیلی کیا ہے ۔ کون اس تبدیلی کا موجب ہے ۔ کو نسا نظریہ ہے ۔ جو مغرب میں نظر آتا ہے پاکستانی میڈیا میں نظر نہیں آتا ہے ۔ پوری تفصیل اس کالم میں” ایک تبصرہ