: داسو ڈیم کے قریب بس حادثے کے بعد پاکستان میں چینی شہریوں کی ’کلاشنکوف کے ساتھ تصاویر‘ انڈیا میڈیا اور پاکستانی ریاست مخالف عناصر کے دعوؤں کی حقیقت کیا ہے؟
24 جولائی 2021
،تصویر کا ذریعہTWITTER اورفیس بک
انڈین ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا اور پاکستان میں کچھ ریاست مخالف سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ کے والز پر یہ تصاویر گردش کر رہی ہیں۔
گذشتہ دنوں پاکستان میں داسو ڈیم کے قریب بس حادثے میں نو چینی انجینیئرز سمیت 13 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اسی خبر کے پس منظر میں پاکستان کی سکیورٹ صورتحال کی کوریج کرتے ہوئے انڈین اخبار ’انڈیا ٹوڈے‘ نے ایک خبر شائع کی جس کی سرخی کچھ یوں لگائی گئی ’بس میں دھماکے کے بعد پاکستان میں چینی ورکرز کو کلاشنکوف اٹھائے دیکھا گیا ہے۔‘
اس خبر کی تصدیق کے بغیر
انڈیا ٹوڈے نے اس تحریر میں لکھا ہے کہ سکیورٹی خدشات کے پیش نظر ’ایسی تصاویر منظر عام پر آئی ہیں جن میں چینی ورکرز پاکستان میں کام کے دوران اے کے 47 لیے گھوم رہے ہیں۔‘اور ہندوستانی پاکستان کے خلاف منفی پروپیکنڈہ کرتا رہتا ہے ۔ اور پاکستان میں موجود نمک حرام اور ریاست مخلاف عناصر بھی انڈین میڈیا پروپکنڈہ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں ۔
پاکستان میں چینی شہری اکثر زیر تعمیر منصوبوں کے مقامات پر نظر آتے ہیں اور وہ اپنے مخصوص لباس یا حفاظتی سامان جیسے ہیلمٹ کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔ ایسے میں ان کا بھاری کلاشنکوف پکڑ کر کنسٹرکشن سائٹ پر کام کرنا آج تک کسی پاکستانی شہری نے نہیں دیکھا ہے ۔
داسو ڈیم واقعے پر پاکستان نے ’دہشت گردی کے امکان کو مسترد نہیں کیا‘ اور تحقیقات جاری ہیں ۔ اس سلسلے میں کچھ گرفتاریاں بھی ہوٸی ہونگی تاہم مکمل حقاٸق کو جانچے بغیر دونوں ممالک کے دفتر خارجہ اس پر بیان بازی نہیں کر رہے ہیں ۔
چین نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ ذمہ داران کے خلاف سخت کارروائی کی جائے اور ملک میں دیگر منصوبوں پر کام کرنے والے چینی شہریوں کی حفاظت یقینی بنانے کے لیے ان کی سکیورٹی بڑھائی جائے۔
تاہم ہندوستان کے مقامی ذرائع ابلاغ اور بعض سوشل میڈیا صارفین یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ پاکستان میں سکیورٹی خدشات کے پیش نظر ’چینی انجینیئرز اور ملازمین کی جانب سے اے کے 47 رائفل اپنے کندھوں پر اٹھا کر پھرنے کی تصاویر دونوں ممالک (سینو پاک) میں بڑھتے عدم اعتماد کے حوالے سے کئی سوال اٹھا رہی ہیں۔
‘حالانکہ اس بات کا حقیقت سے کوٸی تعلق نہیں جبکہ ہندوستان کی خواہش ہے کہ پاک چین تعلقات میں دراڈ آٸیے ۔اس کے لیے ہندوستان نے بلوچستان میں چینی کارکنا ں کونشانہ بنانے کے مقامی ریاست گرہوں کی برپور پور سپورٹ کی اور افغانستان میں امریکہ کے جانے کے بعد باغی بلوچ ریاست مخالف بے یارو مددگار ہیں ۔
تاہم بی بی سی اردو کا ان تصاویر کا جائزہ لینے پر معلوم ہوا ہے کہ یہ کئی سال پُرانی ہیں اور انھیں حالیہ واقعے کے پس منظر میں غلط انداز میں استعمال کیا جا رہا ہے۔اس خبر کی تفصیل بی بی سی اردو پر موجود ہے ۔
کلاشنکوف کے ساتھ چینی شہریوں کی تصاویر کی حقیقت کیا ہے؟ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے ۔
- متعدد انڈین ویب سائٹس اور سوشل میڈیا صارفین ان تصاویر کے ساتھ یہ دعوے کرتے دکھائے دیتے ہیں کہ حالیہ بس دھماکے کے بعد پاکستان میں سی پیک منصوبوں پر کام کرنے والے چینی ملازمین نے خود اپنی حفاظت کرنے کے لیے بندوقیں اٹھا لی ہیں۔
انڈیا ٹوڈے اور ریپبلک ٹی وی کی خبروں میں لکھا ہے کہ اس سے پاکستانی سکیورٹی حکام کی صلاحیت پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں کہ وہ ملک میں چینی شہریوں اور املاک کی حفاظت میں ناکام رہے ہیں۔
ایک انڈین صارف، جن کی ٹوئٹر پروفائل پر بلو ٹِک بھی ہے، نے لکھا کہ ’چین نے اپنے شہریوں کو حکم دیا ہے کہ پاکستان میں اپنے قیام کے دوران کلاشنکوف اپنے پاس رکھیں۔۔۔ حتی کہ چین (پاکستان کے) جنگجو جرنیلوں کو اتنے پیسے دیتا ہے۔‘
،تصویر کا ذریعہTWITTER
اگر سوشل میڈیا پر کی جانے والی پوسٹس اور انڈین مقامی ذرائع ابلاغ کی خبروں کا جائزہ کیا جائے تو انھوں نے دو مخصوص تصاویر شائع کی ہیں۔
ان دونوں میں بظاہر چینی دکھنے والے شہری کندھوں پر کلاشنکوف لیے کھڑے ہیں اور ایسا لگتا ہے جیسے وہ کسی زیر تعمیر منصوبے کے پاس کھڑے ہیں۔
دونوں تصاویر میں ان افراد نے سائٹ پر تعمیراتی کمپنی کے کسی ملازم کا مخصوص لباس نہیں پہنا ہوا اور نہ ہی ان کے سروں پر حفاظتی ہیلمٹ ہے۔ ایک تصویر میں تو چینی شہری نے شارٹس (نیکر) پہنی ہوئی ہیں۔
مگر چونکہ یہ دونوں لوگ سروے اور ماپنے کے لیے استعمال ہونے والے آلے کے ساتھ کام کر رہے ہیں اس لیے یہ لگتا ہے جیسے وہ سروے کے کام پر مامور انجینیئر ہیں۔
جب بی بی سی اردو سروس ویب کے مطابق ہم نے پہلی تصاویر کو ریورس امیج چیک کیا تو معلوم ہوا کہ اے کے 47 اٹھائے اور شارٹس پہنے لڑکے کی تصویر دراصل ایک چینی بلاگ سے لے گئی ہے جو وہاں پانچ مئی 2020 کو شائع ہوئی تھی۔ جبکہ داسو ڈیم واقعہ جولائی 2021 میں ہوا ہے
’ملک سے باہر ایک سال رہنے کے بعد‘ چینی مقاقی اس بلاگ میں کئی چینی ملازمین ملک کے باہر جانے سے پہلے اور بعد کی تصاویر شیئر کر رہے ہیں۔ یہ واضح نہیں کہ یہ تصویر کس ملک کی ہے مگر اس بلاگ میں لکھا ہے کہ افریقہ جانے کے بعد تیز دھوپ سے ان اوورسیز چینی شہریوں کے ’رنگ سانولے ہو گئے ہیں۔‘
اس بلاگ میں اسی شخص کی مزید تصاویر بھی دیکھی جا سکتی ہیں جن میں انھوں نے وہی عینک اور شارٹس پہنی ہوئی ہیں۔ اس تحریر میں لکھا ہے کہ وہ ملک سے باہر جانے کے بعد پراجیکٹ سائٹ ٹیکنیشن سے پراجیکٹ لیڈر بن گئے ہیں۔
دوسرے تصویر میں جیکٹ پہنے بظاہر ایک چینی شہری، جس کے پس منظر میں کسی پہاڑ کی چٹان ہے، ماپنے کا آلہ پکڑ کر تعمیراتی کام کا سروے کر رہا ہے اور اس نے کندھے پر بندوق لٹکائی ہوئی ہے۔
تصویر کا جائزہ لینے پر معلوم ہوتا ہے کہ اسے گذشتہ سال اگست میں ایک چینی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی ایک ایسی تحریر شائع کیا گیا جس کا عنوان ‘انجینیئرنگ سروے کی مزاحیہ تصاویر’ ہے۔
مگر اس سے بھی پہلے سنہ 2018 میں اسے چینی سوال جواب کی ویب سائٹ جیہو پر شائع کیا گیا تھا۔ اس میں ین گونگ نامی اس شخص کا انٹرویو بھی موجود ہے جنھوں نے تصویر میں کلاشنکوف اٹھائی ہوئی ہے۔
اس میں وہ ہنستے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’بندوق کے ساتھ میں نے یہ تصویر اس وقت بنوائی تھی جب میں سنہ 2006 میں پاکستان میں تعمیراتی سروے کر رہا تھا۔
یہ بھی پڑھیے
10داسو چینٸز کارکنان کی بس حادثہ فراد جانبحق 31 زخمی دھماکے کی نوعیت کا پتہ نہیں چل سکا
ہنزہ ۔گوجال کے کاروباری حضرات کا خنجراب ٹاپ کو سیاحت کے لیے کھولنے کا مطالبہ ۔سیاحت پر پابندی معاشی قتل ہے ۔ہنزہ بزنس ایوسیشن
۔پاکستانی کوہ پیما سرباز خان ان کے دو ساتھی جن میں ایک خاتوں کوہ پیما ناٸلہ بھی شامل ہیں ۔ گشہ بروم 2 کو سمیٹ کیا ہے ۔ دنیا کا تیرواں بلند ترین چوٹی سرباز نے سمیٹ کر کے مشہور کوہ پیما محمد علی سدپارہ کا ریکارڈ برا کیا
’پہلے میں نے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا تھا مگر یہ پاکستان میں میری اچھی یادوں میں شامل ہے۔ پاکستان میں ہائے وے کی تعمیر میں سروے کا کام بہت اہم ہے۔‘ شاہرا ہ قراقرم کے تعمیر نو کے وقت چینی کاکنان کی حفاظت پر معمور پولیس اہلکاروں کے ساتھ چینی انجنٸیرز کے دوستانہ تعلقات تھے اس دوران وہ پولیس کے گن لیکر اپنے تصاویر بنایا کرتے تھے اور یہ ایک ٹرینڈ بنا ہوا تھا غالب گمان یہی ہے کہ اس وقت کی تصویر ہے ۔
اس انٹرویو میں بتایا گیا کہ ان کی یہ تصویر سروے اور نقشہ سازی کے حلقوں میں کافی مقبول ہوئی تھی۔
جب ین گونگ سے ایک دہائی سے زیادہ عرصہ قبل اپنے تجربے اور اس بندوق کے پس منظر کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ چین کے مقابلے پاکستان میں زیادہ انتہا پسندی ہے۔ مگر وہ کہتے ہیں کہ ’پاکستانی لوگ چینی شہریوں سے بہت اچھے سے پیش آتے ہیں۔‘
اس طرح ین گونگ کی تصویر کا بھی رواں ماہ داسو ڈیم کے قریب ہونے والے دھماکے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
جبکہ ہندوستانی میڈیا داسو ڈیم کو بھی سی پیک کا حصہ کہہ کر خبر بنا رہے ہیں ’داسو ڈیم کا منصوبہ سی پیک کا حصہ نہیں‘
انڈین ذرائع ابلاغ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ رواں ماہ دھماکے کے بعد چینی حکومت نے سی پیک منصوبوں پر سکیورٹی کے حوالے سے پاکستان سے اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے۔ جبکہ اس میں کوٸی حقیقت نہیں
چین کے دفتر خارجہ کے ترجمان نے 19 جولائی کو پریس کانفرنس کے دوران بتایا تھا کہ اسے پاکستان میں چینی مسافروں کی بس میں دھماکے پر تشویش ہے اور ’چین کا کراس ڈیپارٹمنٹل جوائنٹ ورکنگ گروپ پاکستان کے ساتھ مل کر اس کی تحقیقات کر رہا ہے۔‘
،
ترجمان کے مطابق ‘ہمارے خیال سے یہ واحد واقعہ تھا۔ ہمیں یقین ہے کہ پاکستان اپنے ملک میں چینی شہریوں اور املاک کی حفاظت کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔‘
چینی دفتر خارجہ کے ترجمان نے اس میں واضح کیا تھا کہ داسو ڈیم کا منصوبہ سی پیک کا حصہ نہیں ہے مگر یہ چین اور پاکستان کے باہمی تعاون کا الگ منصوبہ ہے۔
پاکستان میں کٸی میگا پروجیکٹس پر چینی کمپناں کام کر رہی ہیں ۔ حکومت پاکستان نے ہمیشہ چینی کارکنان کو برپور سکورٹی دی ہے ۔خواہ وہ منصوبہ پراٸیوٹ ہو یا سرکاری چینی کارکنا ن کی حفاظت میں پاکستانی سکورٹی فورسس نے معمولی کوتاہی نہیں برتی ہے
“داسو ڈیم کے قریب بس حادثے کے بعد پاکستان میں چینی شہریوں کی ’کلاشنکوف کے ساتھ تصاویر‘ انڈیا میڈیا اور پاکستانی ریاست مخالف عناصر کے دعوؤں کی حقیقت کیا ہے” ایک تبصرہ